اگر دوسرى شادى كا نتيجہ پہلے گھر كى تباہى ہو تو كيا دوسرى شادى كر لے ؟
كيا مرد كے ليے دوسرى شادى كرنا جائز ہے چاہے اس كے نتيجہ ميں اس كى پہلى بيوى كا گھر اجڑ جائے، اور مشكلات پيدا ہو جائيں ؟
përgjigje
الحمد للہ:
دين اسلام نے كوئى بھى ايسا عمل مشروع نہيں كيا جس سے فرد يا معاشرے كو ضرر اور نقصان ہوتا ہو، بلكہ دين اسلام نے جتنے بھى امور مشروع كيے ہيں ان ميں زندگى و تعمير اور اجتماعيت و طہارت و پاكيزگى اور عفت و عصمت اور بلندى كا قيمتى معنى پايا جاتا ہے، خليل اور كوتاہى تو ان مسلمانوں ميں ہوتى ہے جو اللہ كى شريعت كى صحيح سمجھ نہيں ركھتے، يا پھر سمجھتے تو ہيں ليكن وہ اس پر عمل نہيں كرتے، اور اپنى خواہشات كے پيچھے چل نكلنے كى بنا پر بدعملى كا شكار ہوتے ہيں.
اوپر جو كچھ بيان ہوا ہے ہم اس كى مثال يہ دے سكتے ہيں كہ ايك سے زائد شادياں كرنا بعض اوقات اس كے پہلے گھر اور بيوى كى تباہى كا سبب بن سكتا ہے، اس كا سبب پہلى بيوى پر ظلم كرنا اور اپنى خواہش كے پيچھےچلنا اور پہلى بيوى كو اس كے حقوق ادا نہ كرنا ہوتا ہے.
يا پھر اس كا سبب يہ ہوتا ہے كہ وہ اپنى پہلى بيوى كو اپنى دوسرى شادى كرنے كى خبر دينے ميں صحيح طريقہ اور تصرف اختيار نہيں كرتا، يا پھر اگر پہلى بيوى كو اس كى دوسرى شادى كا پہلى بيوى كو علم ہونے كى صورت ميں صحيح معاملہ اور تصرف نہ كرنے كے باعث، كيونكہ اسے ايسى صورت ميں پہلى بيوى كے دكھ اور غم كو كم كرنے كى كوشش كرنى چاہيے، اور اس كے ساتھ حسن معاشرت اور حسن معاملہ كرنا چاہيے، اور اسے ہديہ و تحفے تحائف سے خوش كرنا چاہيے.
اور بعض اوقات پہلى بيوى بھى اپنا گھر اجاڑنے كا باعث بنتى ہے؛ وہ اس طرح كہ اپنے خاوند كى دوسرى شادى كو قبول نہيں كرتى، اور اس كے ساتھ رہنے ميں تنگى پيدا كرتى ہے، اور اس معاملہ ميں وہ بہتر طريقہ سے تصرف نہيں كر پاتى.
ان عورتوں پر تعجب ہے كہ ايك عورت اپنا گھر اجاڑنے پر راضى ہو جاتى جسے اس نے اپنے پسينہ اور برسہا برس كى جدوجہد كر كے بنايا تھا، اور اپنى اولاد كى تباہى بھى اپنے سامنے ديكھ رہى ہوتى ہے، اور اپنے ميكے ميں ذليل ہونے پر راضى ہونا برداشت كر ليتى ہے، اور وہ اپنى بھابھيوں كى ملازمہ بن كر بھائيوں كے گھر ميں رہنے پر تو راضى ہو جاتى ہے، حالانكہ وہ خود اپنے گھر ميں ملكہ تھى ليكن صرف اس ليے وہ اس گھر كو چھوڑنا چاہتى ہے كہ اس كے خاوند نے دوسرى شادى كر لى ہے!
اور يہ بھى عجيب ہے كہ يہ بيوياں اپنے خاوند كے كسى شرعى واجب كے ترك كرنے يا پھر كسى حرام فعل كو كرنے پر اثرانداز نہيں ہوتيں، بلكہ يا تو وہ اس ميں ان كى معاونت كرتى ہيں، يا كم از كم وہ اس پر خاموشى اختيار كر ليتى ہيں، اور ان ميں كوئى حركت نہيں ہوتى، اس كى بہتر حالت تو يہ تھى كہ وہ زبان سے اس كا انكار كرتى اور اسے روكتى.
ليكن اس كے مقابلہ ميں جب خاوند مباح عمل كرتا ہے يعنى وہ دوسرى شادى كر لے تو وہ قيامت كھڑى كر ديتى ہے، بلكہ يہى نہيں وہ اپنا سارا خاندان اور گھر تباہ كرنے پر تل جاتى ہے، حالانكہ يہ وہى بيوى ہے جو اپنے خاوند كے عمدا حرام فعل پر خاموشى اختيار كيے ركھتى تھى، ليكن جب خاوند نے يہ مباح كام ( يعنى دوسرى شادى ) كيا تو اس نے خاموشى اختيار نہيں كى.
بلكہ جب اكثر بيوياں ہم سے اپنے خاوندوں كے متعلق بعض حرام اعمال مثلا شراب نوشى، اور نماز ترك كرنے وغيرہ كے متعلق دريافت كرتى ہيں تو ہم ان بيويوں كو يہ كہتے ہيں كہ تمہارا ان خاوندوں كے ساتھ رہنا حرام ہے، يا اس ضرر اور نقصان كى وجہ سے جو تمہيں ہونے والا ہے، يا پھر شراب نوشى اور نشہ كرنے كے نتيجہ ميں تمہارى اولاد كو جو ضرر اور نقصان ہوگا اس كى وجہ سے تمہارا ان كے ساتھ رہنا جائز نہيں، يا پھر نماز ترك كرنے كى بنا پر آپ كا نكاح فسخ ہونے كى بنا پر خاوند كے ساتھ رہنا جائز نہيں، يا اس كا دين كو برا كہنے اور سب و شتم كرنے كى وجہ سے.
جب ہم ان بيويوں كو يہ كہتے ہيں تو ان ميں سے اكثر يہ جواب ديتى ہيں: مير گھر ، اور ميرى اولاد كا كيا ہوگا ؟ اور ميں كہاں جاؤنگى، اور ميرے اخراجات كون براداشت كريگا ؟ تو اس طرح اپنے گھر اور اولاد كى دليل كے ساتھ اپنے آپ كو حرام پر راضى كر ليتى ہے.
ليكن جب خاوند دوسرى شادى كر لے اور دوسرى بيوى لے آئے تو اسے اس خاوند سے دور جانے كے ليے ہزار جگہيں مل جاتى ہيں، اور اپنے اور اپنى اولاد كے اخراجات كے ليے بھى اسے كئى ايك طريقے اور راہ مل جاتے ہيں.
يہ ايسے حقائق ہيں جن سے غافل نہيں ہوا جا سكتا، اور ہم سائل كے سوال كا جواب ديتے ہيں كہ اگر خاوند اور بيوى ميں سے دونوں اللہ عزوجل نے انہيں جو حكم ديا ہے اس كو سمجھيں اور اس پر عمل كريں، اور اپنى ازدواجى زندگى ميں بہتر تصرف اور معاملات كريں تو آپ كو اس طرح كے سوال كرنے كى كوئى ضرورت ہى پيش نہ آئے.
اور خاص كر آپ كے سوال كے جواب ميں ہم يہ كہينگے:
عقل و دانش كى مالك عورت كے ليے ممكن نہيں كہ وہ خاوند كى دوسرى شادى كى نيت معلوم ہوجانے كے بعد كوئى ايسا عمل كرے جو عقل كے منافى ہو، يا پھر خاوند ايسا اقدام كرے تو بيوى عقل كے منافى كوئى عمل سرانجام دے، بلكہ اسے صبر و تحمل سے كام ليتے ہوئے اللہ سے اجروثواب كى نيت كرنى چاہے كہ اللہ اسے اس كے صبر كا اجر عطا كريگا، اور بيوى كو چاہيے كہ وہ خاوند كے ساتھ حسن معاشرت كے ساتھ پيش آئے اور خاوند كے پورے حقوق ادا كرتى رہے، اور اپنا گھر تباہ كرنے پر راضى مت ہو، اور نہ ہى اپنا خاندان خاوند كى دوسرى شادى كرنے كى وجہ سے تباہ كرنے پر تل جائے، كيونكہ دوسرى شادى تو اس كے ليے اللہ نے مباح كى ہے، اور اس كى بہت عظيم حكمتيں پائى جاتى ہيں، اگر خاوند اپنى بيوى كے حقوق پورے نہيں كرتا اور ان ميں عدل نہيں كرتا تو اللہ عزوجل كے ہاں وہ مجرم ہے.
اسى طرح كسى عقلمند خاوند كے ليے ممكن نہيں كہ وہ اپنا دوسرے گھر كى بنياد پہلے گھر كى تباہى پر ركھے! اور وہ كبھى بھى اس پر را ضى نہيں ہوگا كہ اس كى سارى كاوش اور جدوجھد اور خرچ كيا ہوا مال ضائع ہو جائے، اور اس نے گھر بنانے ميں جو اوقات صرف كيے وہ دوسرى شادى كى وجہ سے ضائع ہو كر رہ جائيں، حالانكہ اس دوسرى شادى كى اس كو سخت ضرورت نہ ہو.
اس بنا پر خاوند اس معاملہ سے نپٹنے كے ليے بہتر اور اچھى پلاننگ كرنى چاہيے اگر اسے علم ہے كہ اس كى پہلى بيوى اس كے ساتھ اچھا سلوك نہيں كريگى اور اس كے ساتھ زندگى كو تباہ كر دے گى، لہذا خاوند كو اپنى پہلى بيوى كے ساتھ معاملات ميں بہتر اور اچھا تصرف كرنا چاہيے، اور اپنے افعال ميں عقل و دانش اختيار كرے، اور اگر اسے دوسرى شادى كى كوئى خاص ضرورت نہ ہو اور اسے علم ہو كہ پہلى بيوى اس كے پہلے گھر كو تباہ كر كے ركھ دےگى تو ہمارے رائے ميں اسے دوسرى شادى نہيں كرنى چاہيے.
اور اگر اسے علم ہو كہ اس كى پہلى بيوى كے يہ اعمال وقتى ہونگے، اور وہ اس كى بيوى بن كر رہےگى تو اسے دوسرى شادى كر لينى چاہيے، اور خاوند كو چاہيے كہ وہ پہلى بيوى كے ساتھ بہتر اور اچھا سلوك كرے، اور ہر بيوى كو اس كا حق ادا كرے، ليكن ہم پھر يہى كہيں گے تا كہ اس كى حكمت يا يقين كريں اور خاوند كو چاہيے كہ وہ اپنے پہلے گھر كو خطرہ ميں مت ڈالے، اس شخص كى طرح جو محل بنانے كے ليے پورا شہر منہدم كر دے.
اس طرح يہ معاملہ خاوند پر ہے اور يہى وہ چيز ہے جو اس كى زندگى كى اصلاح كا باعث ہے، اور اگر پہلى بيوى سے اس كى شہوت پورى نہيں ہوتى، يا اسے حرام ميں پڑنے كا خدشہ ہے تو اس حالت ميں يہ كہنا ممكن نہيں كہ وہ شادى مت كرے، بلكہ ايسى حالت ميں تو اسے شادى كرنى چاہيے چاہے اس كے نتائج غلط ہى ہوں، اور اسے ان پر صبر كرنا ہوگاب، اور مصيبت كے وقت وہ اللہ سے اجروثواب كى اميد ركھے، اور پورى حكمت كے ساتھ پہلى بيوى سے اچھے معاملات كرے.
اور آخر ميں ہم يہ كہينگے:
1 ـ خاوند كو معلوم ہونا چاہيے كہ اس كے ليے دوسرى شادى كرنا مباح ہے، ليكن بعض اوقات يہ واجب بھى ہو جاتى ہے اور واجب اس وقت ہو گى جب اسے خدشہ ہو كہ وہ كسى حرام ميں پڑ جائيگا، اور وہ دونوں بيويوں كے مابين عدل كرنے پر قادر ہو تو اس كے ليے دوسرى شادى كرنا واجب ہے.
شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ميں كئى سالوں سے شادى شدہ ہوں اور ميرے كئى ايك بچے بھى ہيں، اور خاندانى زندگى بھى اچھى گزر رہى ہے، ليكن ميں ايك اور بيوى كى ضرورت محسوس كرتا ہوں؛ كيونكہ سيدھا رہنا چاہتا ہوں اور ميرے ليے ايك بيوى كافى نہيں، كيونكہ ايك مرد ہونے كے ناطے مجھ ميں عورت سے زيادہ قوت پائى جاتى ہے، اور دوسرى چيز يہ كہ ميں كچھ مخصوص والى بيوى چاہتا ہوں جو ميرى پہلى بيوى ميں نہيں ہيں؛ اور اس ليے بھى كہ ميں حرام ميں نہيں پڑنا چاہتا، فى نفس وقتہ ہى ميں معاشرت كے اعتبار سے دوسرى شادى كرنے ميں مشكل محسوس كرتا ہوں، اور اس ليے بھى كہ ميرى بيوى جس ميں ميں نے كوئى ناپسند چيز نہيں ديكھى وہ دوسرى شادى كو مطلقا رد كرتى ہے، اس ليے مجھے آپ كيا نصحيت كرتے ہيں ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
اگر تو واقعتا ايسا ہى ہے جيسا آپ نے سوال ميں بيان كيا ہے تو آپ كے ليے حسب قدرت و استطاعت دوسرى اور تيسرى اور چوتھى شادى كرنا مشروع ہے، تا كہ آپ اپنى عفت و عصمت كو بچا سكيں، ليكن شرط يہ ہے كہ اگر آپ عدل كر سكتے ہوں تو درج ذيل فرمان بارى تعالى پر عمل كرتے ہوئے دوسرى شادى كريں:
فرمان بارى تعالى ہے:
اور اگر تمہيں ڈر ہو كہ يتيم لڑكيوں سے نكاح كر كے تم انصاف نہ ركھ سكو گے تو اور عورتوں سے جو بھى تمہيں اچھى لگيں تم ان سے نكاح كر لو، دو دو، تين تين، چار چار سے، ليكن اگر تمہيں ڈر ہو كہ عدل نہ كر سكو گے تو ايك ہى كافى ہے النساء ( 3 ).
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اے نوجوانوں كى جماعت تم ميں سے جو كوئى بھى شادى كرنے كى استطاعت ركھتا ہے تو وہ شادى كرے، كيونكہ يہ نظر كو نيچا كر ديتى ہے، اور شرمگاہ كى حفاظت كا باعث ہے اور جو كوئى استطاعت نہ ركھتا ہو تو وہ روزے ركھے كيونكہ يہ روزے اس كے ليے بچاؤ ہيں "
متفق عليہ.
اور اس ليے بھى كہ ايك سے زيادہ شادياں كرنے ميں نسل اور امت زيادہ ہوتى ہے، اور شريعت اسلاميہ كا ہدف بھى نسل زيادہ كرنا ہے، اور شريعت اس كى دعوت بھى ديتى ہے كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" تم شادى ايسى عورت سے كرو جو زيادہ بچے جننے والى ہو اور زيادہ محبت كرنے والى ہو، كيونكہ روز قيامت ميں تمہارے زيادہ ہونے پر دوسرى امتوں سے فخر كروں گا " انتہى
ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 3 / 203 ).
2 ـ اگر بيويوں كے نان و نفقہ لباس و رات بسر كرنے ميں عدل و انصاف نہيں كر سكتا تو اس كے ليے دوسرى شادى كرنا حرام ہے.
3 ـ يہ معلوم ہونا چاہيے كہ دوسرى گھر بنانے كا مقصد يہ نہيں كہ پہلے گھر ميں كوتاہى سے كام ليا جائے، كيونكہ اس كے خاندان اور اس كے ليے ان كى تربيت ميں كوتاہى اور سستى كرنا اور ان كى ديكھ بھال ميں كمى و كوتاہى حلال نہيں، اسے اپنى پہلى بيوى كے ساتھ حسن سلوك كرنا چاہيے اور اسے راضى كرے؛ تا كہ اس كے گھر كى حفاظت ہو اور شيطان اس كے گھر كو تباہ نہ كر سكے، اسى طرح انسان نما شيطان كى چالوں كو بھى ناكام كرنے كے ليے بيوى سے حسن معاشرت كرے.
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كا كہنا ہے:
" خاوند پر فرض نہيں كہ اگر وہ دوسرى شادى كرنا چاہتا ہے تو پہلى بيوى كو راضى كرے، ليكن يہ مكارم اخلاق اور حسن معاشرت ميں شامل ہے كہ وہ پہلى بيوى كو راضى كرے، اور اس كے احساسات كو سمجھ كر اس تكليف كو كم كرنے كى كوشش كرے، كيونكہ عورتوں كى طبيعت ميں شامل ہے كہ وہ اس كو راضى و خوشى تسليم نہيں كرتيں، خاوند پہلى بيوى سے خوش رہے اور بہتر طريقہ سے ملے اور اچھى بات چيت كے ذريعہ اس كا دل بہلائے اور اسے راضى كرے، اور اسى طرح اگر اسے مال دينے كى ضرورت ہو اور اس كے پاس مال ہو تو بيوى كو مال دے كر اسے راضى كرے.
اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے.
اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے " انتہى
الشيخ عبد العزيز بن باز.
الشيخ عبد الرزاق عفيفى.
الشيخ عبد اللہ بن قعود.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 18 / 402 ).
واللہ اعلم .