کیا ہم جس طرح چاہیں تصرف کرسکتے ہیں؟
Odgovor
الحمدللہ
آپ یہ جان لیں کہ بندوں کے کچھ احوال تو جبری ہیں یعنی بندہ ان میں مجبور ہوتا ہے اور اپنی مرضی نہیں کرسکتا مثلا پیدائش کا دن اور چمڑی اور بالوں اور آنکھوں کا رنگ اور وفات اختیار کرنا۔ تو یہ سب چیزیں ایسی ہیں جس میں انسان کا کوئی کنڑول اور اختیار نہیں بلکہ وہ اس پر مجبور ہیں اور اس اعتبار سے کہ انہیں اس پر اختیار نہیں ہے تو یہ ایسی چیزیں ہیں جن سے نہ جنت اور نہ ہی جہنم مرتب ہوتی ہے اور نہ ہی عذاب اور نعمتیں ملتی ہیں۔
اور بعض ایسے افعال ہیں جن میں انہیں اختیار ہے مثلا ایمان اور کفر اختیار کرنا اور دنیاوی معاملات میں کھانے پینے اور رہائش کا اختیار کرنا۔
یہ سب کچھ اللہ تعالی کی مشیت اور ارادے اور تقدیر سے خارج نہیں لیکن یہ کیسے ہو گا ؟
ایمان بالقدر یہ ارکان ایمان میں سے ہے مسلمان کا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک وہ یہ نہ تسلیم کرلے کہ یہ سب کام اللہ تعالی کی طرف سے ہیں۔
ارشاد باری تعالی ہے۔
"بیشک ہم نے ہر چیز کو ایک (مقررہ) اندازے پر پیدا کیا ہے" القمر 49
بلکہ اللہ تعالی کے اسماء میں سے القادر اور القدیر اور المقتدر بھی ہے۔
اور مسلئے کی اصل اور بنیاد یہ ہے کہ اللہ تعالی علم اور قدرت اور مشیت سے متصف ہے۔
تو اس بنا پر: جب کام کرنے والے کوئی کام کرتے ہیں چاہے وہ گناہ یا اطاعت والے کام ہوں تو یقینا انہیں اللہ تعالی جانتا ہے بلکہ اسے تو ازل سے ہی علم ہے جبکہ ابھی مخلوقات پیدا بھی نہیں کی گئیں تھیں۔
تو پھر علم کے بعد اللہ تعالی نے اسے اپنے پاس لکھا تو پھر جب ان کاموں کے کرنے والوں نے یہ کام کرنے کا ارادہ کیا تو اللہ تعالی نے اس وقت ان کے لئے یہ چاہا تو اگر اللہ تعالی نہ چاہتا تو وہ یہ کام نہ کر پاتے پھر وہ قادر بھی ہے تو اس نے اس فعل کو پیدا فرمایا کیونکہ وہ اسے کرنے والے کا خالق ہے۔
تو اس لئے بندوں سب افعال اللہ تعالی کے پاس لکھے ہوئے ہیں کیونکہ یہ پہلے ہی اس کے علم میں تھے تو اس کا معنی یہ نہیں کہ اللہ تعالی نے لوگوں کو ان افعال پر مجبور کیا ہے بلکہ انہیں تو ان افعال کے کرنے میں اختیار ہے۔
جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے۔
"ہم نے اسے راہ دکھادی اب خواہ وہ شکر گزار بنے خواہ ناشکرا" الانسان/3
لیکن ان کے افعال اللہ تعالی کی طرف سے جبرا نہیں ہیں اور اللہ تعالی اپنے بندوں کو کسی چیز پر مجبور نہیں کرتا۔
امام ابن ابی العز الحنفی اسی مسئلہ میں فرماتے ہیں:
اگر یہ کہا جائے کہ: اللہ تعالی اس کام کا ارادہ کیسے کرتا ہے جسے وہ پسند نہیں کرتا اور اس پر راضی نہیں ہے؟
اور اسے کیسے چاہتا اور اس کی تکویں کیسے کرتا ہے؟ تو اس کام کےلئے اس کا ارادہ اور بغض اور ناپسندیدگی یہ سب کیسے جمع ہو سکتے ہیں؟
تو اس کے جواب میں یہ کہا گیا ہے کہ یہی وہ سوال ہے جس نے لوگوں کو فرقوں میں تقسیم کردیا ہے۔ اور ان کے راستے اور اقوال علیحدہ اور مختلف ہو گئے ہیں۔
تو آپ یہ جان لیں کہ مراد کی قسمیں ہیں۔ مراد لنفسہ ۔۔ اور مراد لغیرہ۔
مراد لنفسہ:
یہ وہ ہے جو کہ ذاتی طور پر مطلوب اور محبوب ہے اور اس میں جو خیر پائی جاتی ہے وہ مراد ہے جو کہ ارادہ مقاصد اور غایت ہے۔
مراد لغیرہ:
ہوسکتا ہے وہ ارادہ کرنے والے کو مقصود نہ ہو اور ذاتی اعتبار سے بھی اس میں کوئی مصلحت نہ ہو اگرچہ وہ اس کے مقصود اور مراد کا وسیلہ ہو تو وہ اس کے لئے ذاتی اور نفسی طور پر مکروہ ہے۔ اسے ارادہ تک پہنچانے اور قضاء کے لحاظ سے اس کی مراد ہے۔
تو اس میں دوچیزیں جمع ہوں گی۔ اس کا بغض اور ارادہ باوجود اسکے متعلق کے اعتبار سے ان میں اختلاف ہے آپس میں ایک دوسرے کے منافی نہیں۔
یہ اسی دوائی کی طرح ہے جو کہ ناپسند ہو لیکن جب کھانے والے کو یہ پتہ چل جائے کہ اس میں شفاء ہے اور جسم کی بقاء کے لئے اس عضو کو جو دکھایا جاچکا ہو جسم سے کاٹ دینا اور ایسے ہی جب یہ معلوم ہو کہ یہ مراد اور محبوب تک پہنچادے گی تو اس مشقت والی مسافت کو طے کرنا۔
بلکہ عقل مند تو اس مکروہ اور ناپسند کو ہی چنے گا ظن غالب میں اسکا ارادہ اگرچہ اس کا انجام اس سے مخفی ہی کیوں نہ ہو تو پھر وہ جس پر کوئی چیز بھی مخفی نہیں ہے اس سے کیسے ہوسکتا ہے۔
تو اللہ سبحانہ کسی چیز کو ناپسند کرتا ہے تو کسی دوسرے کی بناء پر اسکے ارادہ کے منافی نہیں ہے اور اس اعتبار سے کہ وہ کسی کام کا سبب ہے اسے زیادہ محبوب ہے۔
اور اسی سے یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ابلیس کو پیدا فرمایا جو کہ فساد کی جڑ ہے اور ادیان اور اعمال اور اعتقادات اور ارادوں میں فساد کرتا ہے۔۔۔۔۔۔ لیکن اسکے ساتھ ساتھ وہ اللہ تعالی کی محبت کا وسیلہ ہے جو کہ اس کی مخلوق پر مرتب ہوتی ہے اور تو اسے اسکا موجود ہونا نہ ہونے سے زیادہ پسند ہے۔
شرح عقیدہ طحاویۃ/252-253
واللہ اعلم .