خاوند نماز فجر كے ليے بيدار نہيں ہوتا كيا بيوى جماع سے رك جائے
ميں ايك ايسے شخص سے شادى شدہ ہوں جو الحمد للہ دين كا التزام كرنے والا ہے، اور اس ميں بہت خير ہے، ليكن مشكل يہ ہے كہ اس كى نيند بہت گہرى ہے، وہ نماز فجر كے ليے آسانى سے بيدار نہيں ہوتا.
اور غالبا جب وہ جنابت كى حالت ميں ہو تو بيدار نہيں ہوتا، كيا مجھ پر كوئى گناہ تو نہيں ہے ؟
ميں يقينى طور پر جانتى ہوں كہ ميں جتنى بھى كوشش كر لوں وہ نماز كے ليے بيدار نہيں ہوتا، اور خاص كر جب سفر سے آيا ہو يا تھكا ہوا ہو، اور كيا نماز كے ليے ميں ہم بسترى سے رك سكتى ہوں ؟
Vastaus
الحمد للہ:
جب مرد اپنى بيوى كو ہم بسترى كى دعوت دے تو اسے خاوند كى اطاعت كرنا فرض ہے، كيونكہ بخارى اور مسلم نے ابو ہريرہ رضى اللہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب آدمى اپنى بيوى كو اپنے بستر پر بلائے تو وہ انكار كر دے اور خاوند ناراض ہو كر رات بسر كرے تو صبح ہونے تك فرشتے عورت پر لعنت كرتے رہتے ہيں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 3237 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1436 ).
شيخ الاسلام رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جب خاوند ہم بسترى كے ليے بلائے تو بيوى كو اس كى اطاعت كرنى چاہيے، كيونكہ يہ فرض اور واجب ہے...
جب وہ خاوند كى اطاعت سے انكار كرتے ہوئے ہم بسترى نہيں كرتى تو وہ نافرمان اور بد دماغ كہلائيگى، جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ اور جن عورتوں كى نافرمانى اور بددماغى كا تمہيں ڈر ہو انہيں نصيحت كرو، اور انہيں الگ بستروں پر چھوڑ دو اور انہيں مار كى سزا دو، پھر اگر وہ تابعدارى كريں تو ان پر كوئى راستہ تلاش نہ كرو }النساء ( 34 ) انتہى
ديكھيں: الفتاوى الكبرى ( 3 / 145 - 146 ).
اور اگر اس كے بعد خاوند سو جائے تو بيوى كو چاہيے كہ وہ اسے نماز فجر كے ليے بيدار كرے، اور اگر وہ بيدار نہيں ہوتا اور اس ميں كوتاہى كرتا ہے تو اس كا گناہ خاوند كو ہو گا، بيوى كو كوئى گناہ نہيں.
اس ليے بيوى كو چاہيے كہ وہ اپنے اوپر جو حق واجب ہے اس كى ادائيگى كرے، خاوند اپنى نماز كا خود ذمہ دار ہے، اور اگر وہ اس ميں كوتاہى كرتا ہے تو يہ اس كى كوتاہى شمار ہو گى بيوى كى نہيں.
فقھاء كرام نے اس مسئلہ كے برعكس مسئلہ كا حكم بيان كيا ہے جو يہاں مفيد ہے:
رملى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اگر خاوند كو علم ہو جائے كہ جب وہ بيوى سے رات كو ہم بسترى كريگا تو وہ فجر كى نماز كے ليے غسل نہيں كريگى بلكہ نماز فوت ہو جائيگى، ابن عبد السلام كہتے ہيں: اس پر بيوى سے ہم بسترى حرام نہيں ہوگى، بلكہ وہ اسے نماز كے وقت غسل كرنے كا حكم دےگا.
اور فتاوى الاحنف ميں بھى ايسے ہى ہے " انتہى
ديكھيں: حاشيۃ الرملى على اسنى المطالب ( 3 / 430 ).
اور نوازل البرزلى ميں درج ہے:
" عز الدين سے يہ بھى دريافت كيا گيا كہ: جس شخص كے ليے رات كے علاوہ بيوى كے قريب جانا ممكن نہ ہو، اور اگر وہ رات كو مباشرت كرے اور بيوى نے صبح تك غسل مؤخر كر ديا حتى كہ سستى كى بنا پر وقت بھى نكل گيا تو كيا خاوند كے ليے ايسا كرنا جائز ہے يا نہيں چاہے اس سے نماز ميں خلل بھى ہو ؟
ان كا جواب تھا:
" خاوند كے ليے رات كے وقت مباشرت كرنى جائز ہے، اور وہ بيوى كو غسل كر كے فجر كى نماز ادا كرنے كا كہےگا، اگر تو وہ اس كى اطاعت كر لے تو وہ دونوں ہى سعادتمند ہونگے ليكن اگر بيوى مخالفت كرتى ہے اور غسل نہيں كرتى تو خاوند كے ذمہ جو واجب تھا اس نے ادا كر ديا " انتہى
ديكھيں: فتاوى البرزلى ( 1 / 202 ).
حاصل يہ ہوا كہ: آپ كے ليے اپنے خاوند سے ہم بسترى كرنے سے ركنا جائز نہيں، پھر آپ كو چاہيے كہ اسے نماز كے ليے بيدار كريں، اور اگر وہ نماز ميں كوتاہى كرتا ہے اور وقت پر ادا نہيں كرتا تو آپ پر كوئى گناہ نہيں.
واللہ اعلم .