بيوى زبان درازى كرتى اور سوء معاشرت سے پيش آتى ہے اور خاوند ترك نماز كے ليے ذريعہ اس كا علاج كرتا ہے كہ تقدير ميں يہى لكھا ہے!!
ميں شيطانى چالوں سے كس طرح چھٹكارا حاصل كر سكتا ہوں، ميرى بيوى زبان دراز اور برى زبان والى ہے، ميں نے كئى بار اسے طلاق دينے اور اسے چھوڑنے كا سوچ چكا ہوں پھر ميں اپنى تقدير كے بارہ ميں سوچ كر كہتا ہوں:
اللہ سبحانہ و تعالى نے ميرے ليے يہ حالت كيوں اختيار كي ہے ؟!
اور اس كے نتيجہ ميں نماز چھوڑ ديتا ہوں، پھر اللہ سے استغفار كر كے توبہ كرتا ہوں، برائے مہربانى آپ مجھے كيا نصيحت كرتے ہيں، اور كيا تقدير كے مسئلہ كى شرح كر سكتے ہيں ؟
Answer
الحمد للہ:
اول:
ہمارے بھائى: جو آپ كہہ رہے ہيں آپ كى يہ منطق نہ تو شرعى طور پر قابل قبول ہے اور نہ ہى عقلى طور پر، ہمارے خيال ميں اگر آپ كسى برے ماحول ميں ملازمت كرتے ہوں اور آپ كا افسر آپ كى توہين كرتا ہو اور آپ كى تحقير كرے يا پھر آپ كى حق تلفى كرے، يا آپ كو طاقت سے زيادہ كام كرنے كا كہے تو ہمارے خيال ميں آپ يہ ملازمت اس دليل سے نہيں كرتے رہيں گے كہ اللہ تعالى نے آپ كى تقدير ميں يہى حالت لكھى ہے"!
بلكہ ہمارے خيال ميں تو آپ بغير كسى افسوس كے اپنى يہ ملازمت ترك كر كے كوئى اور كام تلاش كريں گے تا كہ اپنى عزت كى حفاظت كرسكيں كيا واقعتا ايسا ہى نہيں؟
اور ہمارا يہ بھى خيال ہے كہ اگر آپ كے پڑوسى برے ہوں جو آپ سے برا سلوك كرتے ہوں، اور آپ كى تانك جھانك كرتے ہوں اور دن اور رات ہر وقت تكليف واذيت سے دوچار كريں تو آپ بغير كسى افسوس كے اپنے اس گھر كو چھوڑ كر كہيں اور رہائش اختيار كر ليں گے، اور اس دليل كے ساتھ اسى پڑوسى كے ساتھ نہيں رہيں گے كہ اللہ تعالى نے آپ كے ليے يہى حالت اختيار كى ہے ؟ كيا واقعتا ايسا ہى نہيں ہے ؟
ان دونوں معاملوں اور برے اخلاق كى بيوى ہونے ميں كيا فرق ہے كہ آپ كى بيوى زبان دراز ہے اور سوء معاشرت كرتى ہے، وہ آپ كے نكاح ميں ہے ہر وقت آپ اسے ديكھتے ہيں اور وہ آپ كو ديكھتى ہے، اور پھر اسى پر بس نہيں بلكہ آپ اس كے ساتھ اور وہ آپ كے ساتھ سوتى ہے؟!
جو چيز آپ كو اپنے برے افسر كے ساتھ رہنے كى تبديل كرنے كا باعث بنتى ہے، اور آپ كے برے پڑوسى كے ساتھ رہائش تبديل كرنے كا باعث بنتى ہے وہى چيز آپ كے ليے سوء معاشرت كرنے والى بيوى كى تبديلى كا باعث بن رہى ہے اس ميں كوئى فرق نہيں.
تو كيا كوئى عقلمند يہ قبول كر سكتا ہے كہ بيوى كے معاملہ تو تقدير كى دليل دى جائے اور پھر يہى چيز ہر معاملہ نہ كي جائے ! حالانكہ جو كچھ بھى اوپر بيان ہوا ہے اس ميں آپ كو اختيار حاصل ہے كہ آپ اپنى ملازمت ميں رہيں يا پھر چھوڑ ديں، يا اپنى رہائش ميں برے پڑوسى كے ساتھ ہى رہيں يا اسے چھوڑ ديں.
اسى طرح آپ كو يہ اختيار بھى حاصل ہے كہ آپ اپنى بيوى كے ساتھ رہيں يا پھر اسے چھوڑ ديں، آپ اپنے ليے جو بھى اختيار كريں اللہ سبحانہ و تعالى آپ كو اس پر مجبور نہيں كريگا، بلكہ آپ اپنے ليے اختيار كرنے كا حق ركھتے ہيں اور آپ كو اس كا نتيجہ بھى اكيلے ہى برداشت كرنا ہوگا.
ہمارے ليے ممكن تھا كہ جس تقدير كے معاملہ ميں آپ نے بات كى ہے اس ميں مناقشہ اس وقت كرتے جب شكايت كرنے والى بيوى ہوتى جو كہ اپنے معاملہ كى مالك نہيں اور اپنے خاوند سے بغير طلاق كے عليحدہ ہونے كى استطاعت نہيں ركھتى كہ جب تك خاوند اسے طلاق نہ دے وہ عليحدہ نہيں ہو سكتى.
اور ہو سكتا ہے كہ اگر وہ ايسا كر سكتى تو اس كا انجام اور اس كے نتيجہ ميں اس اپنا انجام كيا ہوتا اسے سوچ كر يا پھر گھر اور ٹھكانہ كھو جانے كى بنا پر وہ ايسا كرنے سے رك جاتى يعنى زبان درازى چھوڑ ديتى.
ليكن شكايت كرنے والا تو خود خاوند ہے تو ايك شاعر كا قول اس پر كتنا ہى لاگو ہوتا ہے:
شكايت كرنے والے تجھے كو كوئى تكليف اور بيمارى نہيں، جب تم بيمار ہوئے تو پھر كيسى حالت ہو گى!!
پھر يہ بتائيں كہ بيوى كى سوء معاشرت اور بدزبانى ميں نماز كا دخل كيا ہے، كہ آپ نماز ادا كرنا چھوڑ ديں، كم از كم آپ نماز كى ادائيگى پر قائم كيوں نہيں رہے كہ اللہ تعالى نے آپ كے ليے يہى حالت اختيار كى ہے!
سبحان اللہ ابليس نے كس طرح آپ كو اپنے شكنجہ ميں قابو كر ليا كہ آپ نے وہ نماز چھوڑ دى جس كے چھوڑنے كو شريعت مطہرہ كفر قرار ديتى ہے! حالانكہ آپ كو نماز ترك كرنے كا كوئى اختيار بھى نہيں تھا.
آپ نے اس بيوى كو اپنے پاس ہى ركھا جسے شريعت نے طلاق دينا مشروع كيا تھا، كہ آپ نے جو حالت بيان كى ہے اس حالت ميں بيوى كو طلاق دينا مشروع ہے؟!
لہذا جس ميں آپ كو چھوڑنے كا اختيار تھا آپ نے اسے تقدير كى دليل دے كر اپنے پاس ہى ركھا، اور جسے ترك كرنے كا آپ كو كوئى اختيار تك نہ تھا اسے چھوڑ ديا، نہ تو آپ نے تقدير كى دليل لى اور نہ ہى شريعت كى!
اللہ تعالى كى شريعت مطہرہ سے يہ كونسى غفلت ہے، اور شيطان نے آپ كو كس طرح شكنجہ ميں قابو كر ليا ہے ؟!
دوم:
ہمارے سوال كرنے والے بھائى: اب آپ پر واجب ہوتا ہے كہ آپ ايك نماز بھى ترك نہ كريں، اور جو كچھ ہو چكا اس كبيرہ گناہ پر توبہ و استغفار كريں جو عظيم معصيت كر چكے ہيں اس سے معافى مانگيں، اور اللہ سبحانہ و تعالى كے احكام اور نماز كى تعظيم كرنے اور بجا لانے پر اپنى تربيت كريں.
كيونكہ نماز دين اسلام كا ايك عظيم ركن اور ستون ہے؛ بلكہ يہ تو ايك ايسا عظيم فرض ہے جو اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنےبندوں پر توحيد كے بعد فرض كيا ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ يہ سن ليا اب اور سنو اللہ كى نشانيوں كى جو عزت و حرمت كرے يہ اس كے دل كى پرہيزگارى كى وجہ سے ہے }الحج ( 32 ).
اللہ كے بندے كيا آپ كو علم نہيں كہ نماز كى ادائيگى اور پابندى كرنے سے تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى غم و پريشانى دور ہوتى تھى:
حذيفہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ليے كوئى پريشانى ہوتى يا غم پہنچتا تو آپ نماز ادا كرتے "
مسند احمد حديث نمبر ( 22788 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 1319 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
ابن اثير رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" يعنى جب بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو كوئى اہم كام پيش آتا يا پھر كوئى غم پہنچتا تو آپ نماز ادا كرتے " انتہى
ديكھيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو جب كوئى اہم كام پيش آتا يا پھر آپ پريشان غمزدہ ہوتے تو كس طرح نماز كى طرف بھاگتے، ليكن آپ نماز كى ادائيگى سے دور بھاگتے ہيں، بہت تعجب اور افسوس كى بات ہے !!
تارك نماز كا تفصيلى حكم ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 5208 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
سوم:
آپ كے علم ہونا چاہيے كہ شريعت مطہرہ نے نيك و صالح اور دين والى عورت سے نكاح كرنے كى ترغيب دلائى ہے اور پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں بتايا كہ بيوى اختيار كرنے ميں مرد حضرات مختلف مقاصد ركھتے ہيں.
كوئى تو خوبصورتى و جمال كى مالك بيوى تلاش كرتا ہے، اور كوئى حسب و نسب اور اونچے خاندان كى لڑكى تلاش كرتا ہے، اور كوئى مال و دولت كے پيچھے بھاگتا ہوا مالدار عورت تلاش كرنے كى كوشش كرتا.
ليكن نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے وصيت فرمائى كہ نيك و صالح اور دين والى عورت سے نكاح كيا جائے، يہاں آپ كى تقدير والى دليل كہاں گئى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم تو نصيحت كر رہے ہيں كہ كوشش اور تلاش كے بعد ايسى عورت سے شادى كرو جس سے تمہارى دنياوى زندگى سعادت والى بنے، اور جو عورت تمہارى عزت و ناموس اور مال و اولاد كى بھى حفاظت كرے؟!
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" عورت سے چار اسباب كى بنا پر نكاح كيا جاتا ہے: عورت كے مال و دولت كى بنا پر، اور اس كے حسب و نسب كى وجہ سے، اور اس كے جمال و خوبصورتى كى بنا پر، اور عورت كے دين كى وجہ سے، تيرے ہاتھ خاك آلود ہوں تو دين والى عورت تلاش كر "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 4802 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1466 ).
آپ نيك و صالح بيوى كے اوصاف معلوم كرنے كے ليے سوال نمبر ( 71225 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
اسى طرح عورت كو بھى يہى حكم ہے، يہ نہيں كہ ان كى بيٹى كا جو بھى پہلے رشتہ مانگنے آئے وہ اسى كے ساتھ اس كى شادى كر ديں، بلكہ انہيں اس شخص كے دين كے بارہ ميں دريافت كرنا چاہيے، اور اس كے اخلاق كے بارہ ميں بھى معلوم كرنے كى كوشش كريں، اگر اس ميں صرف تقدير ہى ہوتى تو پھر انہيں اس ميں كوئى اختيار حاصل نہ ہوتا.
كيونكہ لڑكيوں كے اولياء كو حكم ہے كہ وہ اپنى بيٹيوں كا نكاح ايسے شخص كے ساتھ كريں جن كا اخلاق اور دين اچھا ہو، اس ليے آپ كو اس پر متنبہ رہنا چاہيے.
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب تم سے كوئى ايسا شخص رشتہ طلب كرے جس كے دين اور اخلاق كو تم پسند كرتے ہو تو اس كے ساتھ ( اپنى لڑكى كى ) شادى كر دو، اگر ايسا نہيں كرو گے تو زمين ميں وسيع و عريض فساد بپا ہو جائيگا "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1084 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1967 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
اور پھر اگر معاملہ صرف تقدير كا ہى ہوتا تو طلاق مشروع نہ كى جاتى، بلكہ بيوى تو اپنے خاوند كى تقدير بن جاتى اور خاوند اپنى بيوى كى تقدير ہوتا، وہ دونوں موت تك آپس ميں اكٹھے رہتے اور كبھى عليحدہ ہى نہ ہوتے!
يہ اللہ تعالى كى شرع نہيں بلكہ ہمارے پروردگار عزوجل نے تو طلاق مشروع كى ہے، اور بعض اوقات اسے مستحب قرار ديا ہے، بلكہ بعض اوقات تو طلاق كو واجب قرار ديا ہے.
بلكہ يہى نہيں اگر بيوى غير محرم مردوں سے دوستياں لگاتى ہو اور ان سے ميل جول ركھتى ہو اور خاوند اسى حالت ميں ايسى بيوى كو اپنے پاس ركھے تو وہ ديوث اور بے غيرت كہلائيگا.
اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى نے عورت كے ليے خلع حاصل كرنا مشروع كيا ہے، اس ليے عورت كو حق حاصل ہے كہ اگر اس كا خاوند صحيح نہيں اور شريعت الہى پر عمل پيرا نہيں ہوتا، يا پھر بيوى كے حقوق ادا نہيں كرتا اور اسے طلاق دينے سے بھى انكار كرتا ہے تو وہ ايسے خاوند سے خلع حاصل كر سكتى ہے، اس طرح كے شرعى قوانين و اصول ميں پھر تقدير كہاں گئى ؟!
آپ سوال نمبر ( 1804 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں كيونكہ اس ميں اس مسئلہ كا رد پيش كيا گيا ہے كہ آيا شريك حياۃ بندے كا اختيار ہے يا كہ اللہ كى جانب سے قضاء و قدر ؟.
اور سوال نمبر ( 49004 ) كے جواب كا مطالعہ بھى اشد ضرورى ہے كيونكہ اس ميں ہم نے تقدير كے مراتب اور اس كے دلائل تفصيل كے ساتھ بيان كيے ہيں.
چہارم:
آخرى بات يہ ہے كہ:
1 ـ آپ نے جو نمازيں ترك كر كے گناہ كبيرہ كا ارتكاب كيا ہے اس پر اللہ سبحانہ و تعالى سے توبہ و استغفار كريں.
2 ـ آئندہ ايسا مت كريں.
3 ـ اپنے برے تصرف اور غلط كام اور عاجز ہونے كو تقدير كى طرف منسوب مت كريں، بلكہ آپ اسے اپنى جانب منسوب كريں كيونكہ اس نے اسے اختيار كيا ہے.
4 ـ اپنى بيوى كو اچھے اور نرم طريقہ سے وعظ و نصيحت كريں كہ وہ اللہ كا تقوى اور ڈر اختيار كرے جو اس كا پروردگار ہے اور ازدواجى زندگى ميں جو واجبات ہيں انہيں اچھى طرح ادا كرے، اور آپ كے ساتھ بدزبانى اور بدكلامى اور سوء معاشرت سے باز آ جائے.
5 ـ بيوى كو وعظ و نصيحت كرنے اور سمجھانےكے ليے اس كے خاندان ميں سے عقل و دانش ركھنے والے افراد كو درميان ميں لائيں.
6 ـ اگر يہ سب كچھ فائدہ نہ دے تو پھر آپ اسے طلاق دينے ميں كوئى تردد نہ كريں.
7 ـ اپنے پروردگار سے دعا كريں كہ وہ آپ كو اس كا نعم البدل عطا فرمائے، اور اس كے ليے آپ اللہ سبحانہ و تعالى سے مدد كى درخواست كريں.
اور آپ كو اللہ نے بيوى كى تلاش ميں جو اختيار ديا ہے اس ميں اسباب كى مدد سے دين والى عورت كو اختيار كريں.
8 ـ بيوى كو اختيار كرنے سے قبل نماز استخارہ ضرور ادا كريں.
نماز استخارہ كى تفصيل آپ كو سوال نمبر ( 2217 ) اور ( 11981 ) كے جوابات ميں ملے گى آپ ان كا ضرور مطالعہ كريں.
واللہ اعلم .