قران میں تحریف کرنے والی ویپ سائٹ کے متعلق انتباہ
回答
اس سوال کےجواب سے قبل ایک تنبیہ کرنا ضروری ہے کہ منکر کو روکنے میں حکمت سے کام لینا چاہیے یہ نہ ہو کہ مسلمان اسلام مخالف ویپ سائٹ کا اعلان کرکے اس کی ترویج نہ کرے ، ایسا کام کرنے سے وہ غیرارادی طور پر مسلمانوں کے درمیان اس ویپ سائٹ کی شھرت کا باعث بنے گا اور لوگ اس پڑھنے کے لیے اس کو دیکھیں گے ، تو اس طرح وہ غیرمباشر طور پر اس غلط کام میں حصہ ڈال رہا ہے جو کہ یہ گمان کرتا پھر رہا ہے کہ وہ قرآن کی طرح کچھ لا سکتا ہے ۔
حالانکہ قرآن کی طرح بنانا محال ہے اس ليے کہ اللہ تعالی نے یہ چیلنج دے رکھا ہے کہ کوئ ایک یہ کر کے دکھاۓ ، اور عرب کے ان فصحاء وبلغاء لوگوں کو اللہ تعالی نے چیلنج دیا جو کہ شعراء اور عربی لغت کے ماہر سمجھے جاتے تھے ، اور جب قرآن کریم کا نزول ہو رہا تھا اس وقت تو ان کی فصاحت وبلاغت تو بلندیوں کو چھو رہی تھی ۔
اللہ سبحانہ وتعالی نے اسی چیلنج کو اس طرح ذکر فرمایا جس کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے :
{ اچھا اگر یہ سچے ہیں تو بھلا اس جیسی کلام یہ ( بھی ) تو لے آئيں } الطور ( 34 )
جب وہ اس سے عاجز آگۓ تو انہیں اس کا چیلنج دیا کہ وہ قرآن کریم کی دس سورتوں کی طرح دس سورتیں لائيں ۔
اللہ عزوجل نے یہ چیلنج اس طرح ذکرفرمایا ہے :
{ کیا یہ کہتے ہیں کہ اس قرآن کو اسی نے گھڑا ہے ، جواب دیجۓ کہ پھر تم بیھ اسی کے مثل دس سورتیں گھڑی ہوئ لے آؤ اوراللہ تعالی کے سوا جسے چاہو اپنے ساتھ بلابھی لو اگر تم سچے ہو } ھود ( 14 ) ۔
تو جب اس سے بھی عاجزآگۓ تو اللہ تعالی نے انہیں قرآن کریم کی فصاحت وبلاغت اور حکمت جیسی صرف ایک ہی سورۃ کا چیلنج دیتے ہوۓ فرمایا جس کاترجمہ کچھ اس طرح ہے :
{ کیا یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ آپ نے اس کو گھڑ لیا ہے ؟ آپ کہہ دیجیۓ کہ تو پھر تم اس کے مثل ایک ہی سورۃ لاؤاور جن جن غیراللہ کو بلا سکو بلالو ، اگر تم سچے ہو } یونس ( 38 ) ۔
اور اللہ نے اس چیلنج کو پورا کرنے کی کوشش میں یہ دعوت بھی دی کہ وہ جسے چاہے اپنا معاون بنا لیں اس کا ذکر کچھ یوں کیا گيا ہے :
{ ہم نے جوکچھ اپنے بندے پر اتارا ہے اگر تمہیں اس میں کسی بھی قسم کا شک وشبہ ہو اور تم سچے ہوتو اس جیسی ایک سورۃ تو بنا لاؤ ، تمہیں اختیار ہے کہ اللہ تعالی کے علاوہ اپنے مدد گاروں کو بھی بلا لو } البقرۃ ( 23 ) ۔
تو جب وہ اس سے عاجز آگۓ تو اللہ تعالی نے انہیں یہ بتایا کہ تم مطلق طور پرکسی بھی وقت اور کسی بھی زمانے میں چاہے وہ جس سے مدد لیتے رہیں اس کی طاقت نہیں رکھتے ۔
اللہ سبحانہ وتعالی نے کچھ اس طرح فرمایا جس کا ترجمہ یہ ہے :
{ کہہ دیجۓ کہ اگر تمام انسان اور کل جنات مل کر اس قرآن کے مثل لانا چاہیں تو ان سب سے اس کے مثل لانا ناممکن ہے گو وہ (آپس ) میں ایک دوسرے کے مددگار بھی بن جائيں } الاسراء ( 88 ) ۔
تو اللہ تعالی کے علاوہ کوئ بھی اس طرح کی کلام نہيں کرسکتا اور نہ ہی قرآن کی مثل کوئ چيز لا سکتا ہے اس لۓ کا قرآن کریم ایسی کتاب ہے جس طرح کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{ کہ ایک ایسی کتاب ہے کہ اس کی آیتیں محکم کی گئ ہیں پھرایک حکیم باخبر کی طرف سے صاف صاف بیان کی گئ ہیں } ھود ( 1 )
جب کچھ افتراء پردازوں نے قرآن مجید کی نقل تیار کرنے کی کوشش کی تو ایسی ایسی کمزور اور غلط قسم کی اشیاء بنائیں کہ اس بڑے اور عقل مند تو کہیں رہے بچے بھی اس پر ہنسنے لگے ، جیسا کہ مسیلمۃ کذاب نے بنایا اور کہنے لگا : یا ضفدع بنت ضفدعین ، نقی ماتنقین ، اعلاک فی السماء واسفلک فی الطین ،اے دومینڈکوں کی بیٹی مینڈکی ٹرٹر کر ٹرٹر کیوں نہیں کرتی تیرا اوپر والا حصہ آسمان میں اور نچلا حصہ کیچڑ میں ہے ۔
اس کے علاوہ اور بھی مسیلمہ کذاب اور ان لوگوں کی بکواسات جو کہ نبوت کے دعویدار تھے ۔ دیکھیں کتاب " صید الخاطر لابن جوزی ص (404 )۔
اور یہ ہوسکتاہے کہ باطل کا کچھ حصہ بعض لوگوں کے ہاں عربی لغت اور اسلوب بلاغت کے قواعدسے جہالت کی بنا پر رواج پا جاۓ ، لیکن وہ شخص جو عربی زبان اور اسلوب کوتھوڑابہت بھی سمجھتا ہو وہ کم از کم اس کے درمیان تمییز کرسکات ہے کہ یہ قرآن کریم کا حصہ ہے یا کہ باطل اور کسی کذاب اور مفتر کی بات ہے جوکہ ممکن ہی نہیں کہ قرآن ہو ۔
تو اگر ہم اس ویپ سائٹ پر نظر دوڑآئيں جس کا سوال میں تذکرہ کیا گیا ہے تو ہمیں یہ صاف طور پر معلوم ہوگا ان مذعومہ اورکھوٹی سور میں کفر بول رہا ہے ، مثلا وہ جس میں یہ بیان کیا گيا ہے کہ عیسی بن مریم علیہ السلام اللہ تعالی کے بیٹے اور یہ کہ وہ اللہ ہی ہے ، اور اسی طرح رافضی (شیعۃ ) مذھب خبیثہ کی دعوت دی گئ ہے اس کے علاوہ اور بھی کئ خرافات ہیں ۔
پھر یہی نہیں بلکہ ہم اس کی عبارتوں میں عجیب قسم کا تناقض پاتے ہیں ، اور اس مفتر اور کذاب نے جو سورۃ گھڑی اور اس کا نام تجسد رکھا ہے اس کی آيت نمبر ( 6 ) میں ایک طرف تو یہ کہتا ہے کہ : سبحان رب العالمین ان یتخذ والدا ، رب العالمین اس سے پاک اور مبرا ہے کہ وہ کوئ اولاد پکڑے ۔
تو آپ سورۃ الایمان کی آیت نمبر ( 9 ) میں دیکھیں گے کہ وہ اس طرح کہتا ہے : انت ھو ابن اللہ حقا بک آمنا ، کہ تو ہی اللہ تعالی کاحق اور سچا بیٹا ہے ہم تجھ پر ایمان لاۓ ۔
ہمارے رب والہ نے سچ کہا جب یہ فرمایا کہ :
{ کیا یہ لوگ قرآن مجید پر غور نہیں کرتے ؟ اگر یہ اللہ تعالی کے علاوہ کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقینا اس میں بہت سخت اختلاف پاتے } النساء ( 82 ) ۔
پھران بہتان والی سورتوں کودیکھنے والاان میں وہ کمزور عبارتیں بھی پاتا ہے جس میں کذاب یہ دعوی کرتا ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے نبی علیہ السلام کو یہ اجازت دی ہے کہ وہ قرآن مجید میں جس طرح چاہے تغیر تبدل کرسکتا ہے ، تو سورۃ الوصایا کی آيت نمبر ( 6 ) کی گھسی پٹی عبارت میں کچھ اس طرح ہے : فانسخ مالک ان تنسخ مما امرنا ھم بہ فقدسمحنا لک ان تجری علی قراراتنا تغییرا ! ! ۔
ہم نے انہیں جو بھی حکم دیا ہے اس میں سے آپ جو چاہیں منسوخ کردیں ہم نے آپ کو اس کی اجازت دی ہے کہ آپ ہماری قرارات میں تبیدیلی کرلیں ۔
ہرمسلمان اس افتراء وبہتان کی قدر جانتا ہے جس پر یہ کمزور عبارت مشتمل ہوتی اورکم عقل سے نکلی ہو ، تو ہم عقل مند قاری کو اللہ تعالی کی قسم دے کر پوچھتے ہیں کہ کیا آپ نےکبھی اس طرح کی کمزور عبارت دیکھی ہے ۔
اور کیا یہ ممکن ہے کہ اللہ تعالی قرآن نازل فرماۓ اور اس میں یہ حکم دے کہ جو کچھ اس میں ہے اس کی تنفیذ اور تطبیق اوراس کا التزام کیا جاۓ ، جیسا کہ اللہ تعالی کے اس فرمان میں ہے :
{ اور یہ ایک کتاب ہے جس کو ہم نےبڑی بابرکت بنا کر نازل فرمایا تو تم اس کی اتباع کرو اور ڈرو تا کہ تم پر اللہ تعالی کی رحمت ہو } الانعام ( 155 ) ۔
اوراپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کریم پر تمسک کرنے کا اس طرح حکم دے :
{ تو جو وحی آپ کی طرف کی گئ ہے اسے مضبوطی سے تھامے رہیں بیشک آپ صراط مستقیم پر ہیں } الزخرف ( 43 ) ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اگراس وحی کو جو ان کی طرف کی گئ ہے بالنص اسی طرح بغیر کسی تغییر یا بغیر چھپاۓ لوگوں تک نہیں پہنچاتے تو ان الفاظ میں اوراللہ سبحانہ وتعالی نے انہیں ڈانٹ پلائ ہے :
اللہ تعالی کا فرما ن ہے :
{ یہ لوگ آپ کو اس وحی سے جو نے آپ پراتاری ہے بہکانا چاہتے ہیں کہ آپ اس کے سوا کچھ اور ہی ہمارے نام گھڑ گھڑالیں ، تب تو آپ کو یہ لوگ اپنا ولی اور دوست بنا لیتے ۔
اگرہم آپ کو ثابت قدم نہ رکھتے تو بہت ممکن تھا کہ آپ بھی ان کی طرف قدرے قلیل مائل ہو ہی جاتے ۔
پھر توہم بھی آپ کودنیا میں بھی دوہرا اور موت کا بھی دوہرا عذاب دیتے پھر آپ اپنے لیے ہمارے مقابلے میں کسی کوبھی مدد گاربھی نہ پاتے } الاسراء ( 73 - 75 ) ۔
اور جیسا کہ اللہ تعالی کے اس فرمان میں بھی ہے :
{ اور اگر یہ ہم کوئ بھی بات بنا لیتا ، تو البتہ ہم اس کا داہنا ھاتھ پکڑ لیتے ، پھر اس کی شہ رگ کاٹ دیتے } الحاقۃ ( 44 - 46 ) ۔
اس کے علاوہ دوسری آیات بھی ۔
تو پھر اس کے بعد وہ سب مذعوم سورتیں آئيں جن میں ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ قرآن مجید میں جو چاہیں تبدیلی کریں اور منسوخ کرتے پھریں اور یہ کہ ان کے پاس یہ اتھارٹی ہے کہ وہ احکام میں سے جو چاہيں مٹاتے اور ختم کرتے رہیں ؟ ؟
قرآن مجید میں سے جو چاہے منسوخ کرنے والا صرف اور صرف اللہ سبحانہ وتعالی ہے اس کے علاوہ اور کوئ منسوخ نہیں کرسکتا جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{ اللہ جو چاہے مٹا دے اور جوچاہے ثابت رکھے ، اور لوح محفوظ اسی کے پاس ہے } الرعد ( 39 ) ۔
اور رب ذوالجلال کا فرمان ہے :
{ جس آیت کو ہم منسوخ کردیں ، یا بھلادیں اس سے بہتر یا اس جیسی اور لاتے ہیں ، کیا تو نہیں جانتا کہ اللہ ہر چيزپر قادر ہے } البقرۃ ( 106 ) ۔
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ہم پرواجب و ضروری ہے کہ غوروفکر اور تدبر اور اس کی تنفیذ کریں نہ کہ تغیرو تبدل اور تحریف اورالغاء ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
{ یہ بابرکت کتاب ہے جسے ہم نے آّّپ کی طرف اس لیے نازل فرمایا ہے کہ لوگ اس کی آیتوں پرغوروفکر کریں اورعقلمند اس سے نصیحت حاصل کریں } ص ( 29 ) ۔
ہم نےانٹرنیٹ کی اس ویپ سائٹ پر کذب وافتراء سے بھری ہوئ سورتوں میں واقعی وہ مثال دیکھی ہے جوکہ اللہ تعالی کے اس قول میں بیان ہے :
{ یقینا ان میں ایسا گروہ بھی ہے جوکتاب پڑھتے ہوۓ اپنی زبان کو مڑوڑتا ہے تاکہ تم اسے کتاب میں سے ہی خیال کرو حالانکہ دراصل وہ کتاب میں سے نہیں ، اور یہ کہتے ہیں کہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے حالانکہ دراصل وہ اللہ تعالی کی طرف سے نہیں ، وہ تو دانستہ اللہ تعالی پر جھوٹ بولتے ہیں } آل عمران ( 78 ) ۔
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وہ اپنے دین کی مدد فرماۓ اور اپنی کتاب کو بلندی عطا کرے اور اپنےاولیاء کوعزت سے نوازے ، اور اسی طرح ہم یہ بھی دعا کرتے ہیں کہ وہ اپنے دشمنوں کو ذلیل ورسوا کرے اور اور انہيں خائب وخاسر کرے ۔
اللہ تعالی ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر رحمتیں نازل فرماۓ ۔
واللہ تعالی اعلم ۔ .