دنيا ميں بچوں كو مصائب كا شكار ہونے ميں حكمت
Answer
الحمد للہ:
الحمد للہ:
سب لوگوں كو جاننا اور معلوم ہونا چاہيے كہ اللہ سبحانہ و تعالى حكمت والا ہے، اور اس كے احكام اور تقدير ميں بليغ حكمت پائى جاتى ہے، اور يہ حكمت بعض اوقات اللہ كے كچھ بندوں كو معلوم ہو جاتى ہے، اور بطور امتحان اور آزمائش كچھ سے مخفى رہتى ہے.
اللہ تعالى جو عام امور سرانجام ديتا ہے وہ عمومى حكمت كى بنا پر ہوتے ہيں، مثلا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو مبعوث كرنا، اللہ تعالى نے ان كے متعلق بتايا ہے كہ انہيں رحمت عالمين بنا كر بھيجا گيا ہے، اور اسى طرح اللہ تعالى نے انسانوں اور جنوں كو اپنى توحيد يعنى خالص اپنى عبادت كے ليے پيدا فرمايا.
ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس بنا پر اللہ تعالى نے جو بھى كيا ہے اس كے متعلق ہميں بتايا ہے كہ اس ميں كوئى نہ كوئى حكمت ضرورى ہے، اور اجمالى طور پر ہميں يہى كافى ہے، اگرچہ اس كى تفصيل ہميں نہ بھى معلوم ہو، اس كى حكمت كى تفصيل كا ہميں علم نہ ہونا بالكل اسى طرح ہے جس طرح ہميں اللہ تعالى كى ذات كى كيفيت كا علم نہيں، اور جس طرح ہميں اللہ تعالى كى ثابت شدہ صفات كمال ہميں معلوم ہيں، اور اس كى ذات كے اماكن ـ يعنى حقيقت ـ ہميں معلوم نہيں: تو ہميں جو معلوم ہے ـ يعنى اس كے كمال كا ہميں علم ہے ـ اس كى وجہ سے ہميں جو علم نہيں اس كو جھٹلا نہيں سكتے ـ يعنى اس كمال كى تفصيل كو جھٹلا نہيں سكتے ـ اور اسى طرح ہم يہ بھى جانتے ہيں كہ اللہ تعالى جو حكم كرتا اور اس ميں وہ حكيم ہے كوئى نہ كوئى حكمت پائى جاتى ہے، اور بعض جزئيات ميں ہميں حكمت معلوم نہ ہونا اس كى اصل حكمت كے علم ميں كوئى جرح اور قدح نہيں كرتا، اس ليے ہميں اس كى حكمت ميں سے جو علم ہے اس سے ہم اس تفصيل كو جھٹلا نہيں سكتے جس كا ہميں علم نہيں.
اور ہميں يہ علم ہے كہ جو شخص اہل حساب اور طب اور نحو كى مہارت جان لے اور وہ ان كى ان صفات سے متصف نہ ہو جن صفات كى بنا پر وہ اہل حساب اور طب اور نحو ميں شامل ہونے كے مستحق ہوں تو اس كے ليے ممكن نہيں كہ وہ اس كى توجيہ كے عدم علم كى بنا پر اس ميں جرح قدح كرسكے، اور عبادت گزار اللہ كى
تو ان كا اللہ كى حكمت پر اعتراض سب سے زيادہ اور عظيم جہالت اور بغير علم كے تكلفا قول ہے، اس عامى اور ان پڑھ كى بنسبت جب وہ حساب اور طب اور نحو ميں بغير كسى علم كے قدح اور جرح كرے "
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 6 / 128 ).
اللہ سبحانہ و تعالى كا بچوں كو تكليف اور مصائب ميں ڈالنا بلاشك و شبہ كسى عظيم حكمتوں كى بنا پر ہے، ليكن يہ حكمت بعض لوگوں پر مخفى رہتى ہے، تو وہ اس معاملہ كى بنا پر اللہ تعالى كى تقدير كا انكار كر ديتا ہے، اور اس راستے سے شيطان داخل ہو كر اسے حق اور ہدايت سے روك ديتا ہے.
بچوں كو تكليف اور مصيبت آنے ميں درج ذيل حكمتيں ہيں:
1 - اس سے اس كى بيمارى يا درد پر استدلال كيا جا سكتا ہے، اور اگر اسے تكليف اور درد نہ ہوتى تو اس كى بيمارى كا علم ہى نہيں ہو سكتا تھا.
2 - درد اور تكليف كى بنا پر پيدا ہونے والا آہ و بكا اور رونا اس ميں بچے كے جسم كے ليے عظيم فوائد پائے جاتے ہيں.
3 - عبرت و نصيحت پكڑنا، بعض اوقات بچے كے گھر والے حرام كا ارتكاب كرتے ہيں، يا پھر واجبات كى ادائيگى نہيں كرتے، اس ليے جب وہ اپنے بچے كو تكليف اور درد ميں مبتلا ديكھيں تو ہو سكتا ہے وہ ان حرام مثلا سود خورى، يا زنا كارى، يا نماز كى عدم ادائيگى، يا سگرٹ اور تمباكو نوشى وغيرہ كے ارتكاب سے باز آ جائيں، اور خاص كر جب يہ تكليف ان كے سبب سے پيدا ہوئى ہو جيسا كہ اوپر بعض حرام كاموں كا بيان ہوا ہے.
4 - دار آخرت كى سوچ و بچار اور فكر پيدا ہونا، كہ سعادت و خوشبختى اور آسانى جنت كے علاوہ كہيں نہيں، نہ تو جنت ميں كوئى تكليف اور مصيبت ہو گى اور نہ ہى عذاب، بلكہ ہميشگى كے ليے صحت و تندرستى اور سعادت و عافيت ہوگى.
اور آگ كے متعلق سوچ پيدا ہونى اور فكر كرنى كہ وہ تكليف و آزمائش اور المناكى كا دور اور جگہ ہے جو كبھى ختم نہيں ہو گى، اس طرح وہ جنت ميں جانے اور جنت كے قريب كرنے والے اعمال كريگا، جو اسے آگ سے دور كر ديں.
ابن قيم جوزيہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" پھر آپ بچے كے بكثرت رونے كى حكمت پر غور كريں اور اس ميں جو فائدہ اور منفعت پائى جاتى ہے اس كو ديكھيں؛ كيونكہ طبيب اور علم طبيعت كے ماہرين نے اس فائدہ اور مفعت اور حكمت كى گواہى دى ہے ان كا كہنا ہے:
بچے كے دماغ كى ناليوں ميں ايسى رطوبت ہوتى ہے اگر وہ اس كى ناليوں ميں باقى رہے تو بہت عظيم قسم كا حادثہ اور نقصان ہو، بچے كا رونا اسے ختم كرتا اور دماغ كى ناليوں سے اسے باہر نكال ديتا ہے، اس طرح اس كى نالياں صحيح اور قوى ہو جاتى ہيں "
اور بچے كى چيخ و پكار اور رونا سانس كى ناليوں كو كھولتا ہے، اور رگيں كھلى اور سخت ہو جاتى ہيں، اور اس سے اعصاب قوى ہوتے ہيں.
آپ بچے كا جو رونا سنتے ہيں اس ميں كتنى ہى عظيم منفعت اور مصلحت پائى جاتى ہے، جب اس كے رونے ميں يہ حكمت پائى جاتى ہے جو اس تكليف اور اذيت كے باعث پيدا ہوتا ہے جس كا آپ كو علم بھى نہيں اور نہ ہى آپ كے خيال ميں يہ سوچ تك آتى ہے تو پھر اس تكليف ميں كتنى حكمت پائى جاتى ہو گى.
اسى طرح بچے كا تكليف ميں پڑنا اور اس كے اسباب و انجام ميں بہت سارى حكمتيں پائى جاتى ہيں جو اكثر لوگوں پر مخفى رہتى ہيں، اور ان پر اس كى حكمت كے متعلق كلام ميں مد مقابل جيسا اضطراب پيدا ہو جاتا ہے "
ديكھيں: مفتاح دار السعادۃ ( 2 / 228 ).
اور ايك مقام پر يہ كہتے ہيں:
" يہ تكليفيں اور مصائب انسانى پرورش كى لوازم ہيں جس كے بغير نہ تو كوئى انسان رہ سكتا ہے بلكہ كوئىحيوان بھى نہيں بچ سكتا، اور اگر وہ اس سے خالى ہو جائے تو وہ انسان نہيں بلكہ فرشتہ يا پھر كوئى اور مخلوق ہوگى.
اور پھر بچوں كى تكليفيں بالغوں سے زيادہ سخت اور شديد نہيں ہوتيں، ليكن بالغوں كى جب عادت بن جاتى ہے تو ان پر ان تكليفوں كا آنا آسان ہو جاتا ہے، اور كتنى ہى ايسى شديد تكليف ہيں جو بچوں كو شديد اور بالغ و عاقل بھى اس سے دوچار ہوتے ہيں.
يہ سب كچھ انسانيت كا تقاضا اور موجب خلقت ہے، اگر وہ اس طرح پيدا كيا جاتا تو وہ كوئى اور مخلوق ہوتا، كيا آپ ديكھتے نہيں كہ جب بچہ بھوكا يا پياسا ہوتا ہے، يا اسے ٹھنڈ لگے يا تھكاوٹ محسوس كرے تو وہ كيا كريگا، وہ ان اشياء كے ساتھ خاص كيا گيا ہے جس كى آزمائش ميں بڑا نہيں پڑتا؟
اس كے علاوہ اس كا دوسرى اور تكليف ميں پڑنا تو وہ بالكل بھوك اور پياس اور ٹھنڈ اور گرمى سے كم يا اس سے اوپر ہے، اور انسان بلكہ حيوان بھى اسى خلقت پر پيدا كيا گيا ہے.
ان كا كہا ہے: اگر كوئى سوال كرنے والا سوال كرے: يہ اس طرح كيوں پيدا كيا گيا، اور اسے تكليف قبول نہ كرنے والى مخلوق كيوں نہ بنايا گيا ؟
تو يہ سوال ہى فاسد ہے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے اسے عالم ابتلاء اور آزمائش ميں ايك كمزور سے مادہ سے پيدا كيا ہے، اور يہ آفات و تكاليف اور مصائب كا سامنا كريگا، اور اس كى تركيب ہى ايسى بنائى ہے جو مختلف قسم كى تكليفيں برداشت كرے...
لہذا ان مختلف تكليفوں اور لذات كا پايا جانا يہ روز قيامت دوبارہ اٹھنے كى دليل ہے، اور جس حكمت كا يہ تقاضا تھا وہ دارين كے زيادہ اقتضاء ركھتى ہے: ايسا دار جو خالصتا لذتوں والا ہے جس ميں كوئى كسى بھى قسم كى تكليف اور مصيبت نہيں، اور ايك ايسا دار جو خالصتا تكليفوں اور مصيبتوں كا ہے جس ميں كسى بھى قسم كى كوئى لذت نہيں ہو گى، پہلا دار جنت ہے اور دوسرا دار آگ ہے .... "
ديكھيں: مفتاح دار السعادۃ ( 2 / 231 ).
واللہ اعلم .