اجنبى عورت كى دبر ( پاخانہ والى جگہ ) ميں وطئ كرنے اور توبہ كے بعد آپس ميں شادى كرنا
دبر ميں جنسى تعلقات قائم كرنے سے ہم توبہ كر چكے ہيں اور اس پر نادم بھى ہيں، ہم آپس ميں ايك دوسرے سے بہت زيادہ محبت كرتے ہيں اور جدا نہيں ہو سكتے، اور آپس ميں سعادت كى زندگى بسر كرنا چاہتے ہيں، كيا ميرے ليے اس عورت سے شادى كرنا جائز ہے ؟
يہ علم ميں رہے كہ ہم اباضى مذہب سے تعلق ركھتے ہيں جس ميں زانى شخص كا اس عورت سے شادى كرنا حرام ہے جس سے اس نےزنا كيا تھا چاہے توبہ بھى كر ليں؛ اس كى دليل يہ ہے كہ:
عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے اس شخص اور عورت كے درميان عليحدگى كرا دى تھى جس نے دوران عدت نكاح كر ليا تھا اور فرمايا:
" يہ كبھى جمع نہيں ہو سكتے "
اور ايك دوسرى دليل يہ ہے كہ:
على اور عائشہ اور براء بن عازب رضى اللہ تعالى عنہم سے ثابت ہے كہ:
" جب دو زنا كر ليں تو وہ ہميشہ كے ليے زانى ہيں "
يہ اس ليے كہ شادى سے قبل جس نے ايك دوسرے كو آزما ليا وہ اس پر كبھى مطمئن نہيں ہو سكتا، اس سلسلہ ميں آپ كى رائے كيا ہے ؟
Válasz
الحمد للہ:
اول:
آپ كو علم ہونا چاہيے كہ فقھى مسائل ميں صحيح مسئلہ تلاش كرنا ايك اچھا عمل ہے، يہ اس بات كى دليل ہے كہ وہ شخص حق كى تلاش ميں ہے جس كا اللہ سبحانہ و تعالى نے حكم ديا ہے، اور اس سے بھى بہتر اور اچھا شخص تو وہ ہے جو صحيح عقيدہ كى تلاش ميں ہو جس سے وہ ان گمراہ فرقوں سے نجات حاصل كر سكے جن كے متعلق نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بتايا ہے كہ گمراہ فرقے بہتر ہيں ان كے متعلق آپ نے فرمايا:
" يہ سب كے سب جہنم كى آگ ميں ہيں "
اس كا معنى يہ ہوا كہ يہ ايسى گمراہى ہے جو آگ كى وعيد كى مستحق ہے؛ كيونكہ يہ حق كى راہ سے ہٹ كر رہے، اور حق كى راہ ہى ہے جس پر چل كر انسان كامياب ہو سكتا ہے، اور يہى وہ راہ ہے جو فرقہ ناجيہ كى راہ ہے.
اور اس فرقہ ناجيہ كى كاميابى كا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بتاتے ہوئے فرمايا:
" ايك كے علاوہ يہ سب فرقے جہنم كى آگ ميں ہيں، صحابہ كرام نے عرض كيا: وہ كون سا ہے ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: وہ فرقہ ہے جو اس پر عمل كرے جس پر ميں اور ميرے صحابہ ہيں "
يہ علم ميں ركھيں كہ مسلمان كے ليے جائز نہيں كہ وہ جو چاہے عقيدہ ركھے، بلكہ اس كے ليے گناہ اور معصيت سے بچنے كے ليے ضرورى ہے كہ وہ ايمان اور صفات اور قرآن كے بارہ ميں اہل سنت والجماعت كا عقيدہ ركھے، اور اسى طرح باقى عقيدہ اور توحيد كے مسائل ميں بھى اسے اہل سنت كا عقيدہ ہى اختيار كرنا ہوگا.
ہم آپ كو تنگ نہيں كرنا چاہتے، ليكن ہم آپ كو نصيحت كرنا چاہتے ہيں، اور اگر ہم آپ كو ايك فقھى مسئلہ ميں تو دلائل كے ساتھ جواب دے ديں، اور آپ كے عقيدہ كے متعلق معاملہ كو چھوڑ ديں اور اس ميں آپ كو كوئى نصيحت نہ كريں تو ہم آپ كى خيرخواہى نہيں كر رہے بلكہ دھوكہ ديا ہے.
اس ليے ہم آپ كے سوال كا جواب دينے سے قبل آپ كو دعوت ديتے ہيں كہ آپ سوال نمبر ( 11529 ) كے جواب كا مطالعہ غور سے كريں، ہم اللہ سے اميد كرتے ہيں كہ وہ آپ كو توفيق اور ہدايت سے نوازےگا.
دوم:
بيوى سے دبر ميں وطئ كرنا حرام اور كبيرہ گناہ ہے، تو پھر اگر يہ كسى اجنبى عورت كے ساتھ فعل كيا جائے تو كيا حالت ہو گى ؟! بلاشك و شبہ يہ تو بيوى سے دبر ميں جماع كرنے سے بھى عظيم اور بڑا گناہ ہوگا.
سوم:
آپ دونوں نے اس گناہ سے توبہ اور ندامت كا اظہار كر كے ايك اچھا اقدام اٹھايا ہے، اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ دونوں كى توبہ قبول فرمائے، اور آپ كو نيك و صالح عمل كرنے كى كوشش كرنى چاہيے، كيونكہ يہ توبہ كى تكميل اور كمال ميں شامل ہوتا ہے.
اللہ عزوجل كا فرمان ہے:
اور يقينا ميں بہت زيادہ بخشنے والا ہوں اس شخص كو جو توبہ كرتا ہے اور ايمان لاتا اور نيك و صالح اعمال كرتا اور پھر ہدايت اختيار كرتا ہے طہ ( 82 ).
رہا آپ دونوں كى شادى كا مسئلہ: جب آپ دونوں توبہ كر چكے ہيں تو آپ دونوں كا شادى كرنا جائز ہے، اور اس ميں كوئى مانع نہيں پايا جاتا.
ليكن آپ نے عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ سے عدت ميں كى جانے والى شادى كے متعلق روايت بيان كى ہے جس ميں اس كے ليے ہميشہ كے ليے شادى كرنے كى ممانعت ہے اس كے متعلق عرض ہے كہ:
اگر يہ روايت صحيح ہوـ تو ايسا فعل كرنے والے كے ليے يہ بطور سزا اور تعزير ہے، نا كہ شرعى حكم كا بيان ہے كہ يہ حرام ہے.
اور آپ نے جو باقى صحابہ كرام سے نقل كيا ہے كہ جس زانى نے زانى عورت سے شادى كى تو وہ ہميشہ زانى ہے، تو يہ اس پر محمول كيا جائيگا كہ اگر انہوں نے توبہ نہ كى تو يہ حكم ہو گا.
ابن حزم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ انہوں نے زنى كرنے كے بعد زانيہ عورت سے نكاح كرنے والے كے متعلق فرمايا:
وہ ہميشہ زانى ہى ہيں "
پھر سالم بن عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ ان سے ايسے شخص كے بارہ ميں دريافت كيا گيا جس نے عورت سے زنا كيا اور بعد ميں اس سے نكاح كر ليا تو اس كا حكم كيا ہے ؟
تو سالم بيان كرتے ہيں: اس كے متعلق ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما سے دريافت كيا گيا تو انہوں نے فرمايا:
" اور اللہ تعالى تو وہ ذات ہے جو اپنے بندوں كى توبہ قبول كرتا ہے " الشورى ( 25 ).
ابن حزم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ان كے دونوں قول متفق ہيں؛ كيونكہ انہوں نے توبہ كے بعد نكاح كى اباحت قرار دى ہے " انتہى.
ديكھيں: المحلى ( 9 / 63 ).
واللہ اعلم .