اللہ تعالی نے تقدیر میں بچوں پر مصائب کیوں ہیں
Answer
الحمدللہ
اس اللہ کی حمد ہے جس کی ہر زبان سے تعریف کی جاتی ہے۔ اور ہر زمانے میں وہ ہی عبادت کے لائق ہے اسکے علم سے کوئی جگہ خالی نہیں اور اسے کوئی کام کسی سے مشغول نہیں کرتا وہ شریکوں اور مشابہت سے بہت بلند ہے اور بیوی اور اولاد سے پاک ہے اور اس نے اپنے حکم کو سب بندوں میں نافذ کیا۔
"اسکی مثل کوئی نہیں اور وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے"
اور درود سلام ہوں ان پر جو کہ رحمۃ للعالیمین اور سب انسانوں کے لئے حجت بناکر مبعوث کئے گئے تو انہوں نے رسالت کو پہنچایا اور امانت ادا کردی اور اللہ تعالی کے راستے میں جہاد اس طرح کیا جس طرح جہاد کرنے کا حق تھا حتی کہ ہمیں سیدھے راہ پر چھوڑا کہ اسکی رات بھی دن کی طرح ہے اس سے علیحدہ ہونے والا ہلاک ہوجائے گا۔
اسکے بعد۔
اے میرے بھائی ہمیں جاننا چاہئے کہ کوئی بھی جو کہ اللہ کے موجود ہونے اور اسکے رب اور خالق ہونے پر ایمان رکھتا ہے اگرچہ وہ رب پر ایمان لانے والا غیر مسلم ہی کیونکہ نہ ہو وہ یہ جانتا ہے کہ یہ رب ہر اعتبار سے اپنی مخلوق سے ممتاز ہے۔ ایسی کوئی مجال نہیں کہ اسکے اور اسکی مخلوق کے درمیان کوئی مشابہت اور مقارنہ ہو اور اسی لئے اللہ تعالی کا فرمان ہے۔
"اسکی مثل کوئی نہیں اور وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے" الشوری/11
تو یہ دنیا میں کسی چیز کا مالک اس میں جس طرح چاہے تصرف کرسکتا ہے اور مخلوق میں اسے اسکا کوئی محاسبہ نہیں کرسکتا کیونکہ وہ چیز اسکی ملکیت ہے۔ تو اللہ تعالی تو خالق ہے جسکی مثل کوئی چیز نہیں تو اس کے لئے یہ ہے کہ وہ اپنی بادشاہی میں جو چاہے تصرف کرے۔
اور ہم مسلمان یقین رکھتے ہیں کہ ہمارا رب وہ ہے جس نے ہمیں پیدا کیا اسی کے لئے حکمت بالغہ ہے کہ جس میں کسی وجہ سے بھی کوئی ادنی سا نقص بھی تلاش کرنا ممکن نہیں بلکہ ہے وہ جو رب کے وجود پر ایمان لایا ہے اور اسکے رب ہونے پر راضی ہوا ہے اس کے لئے لازم ہے کہ وہ اس پر ایمان لائے اگر نہیں لائے گا تو اس کا معنی ہے کہ وہ ایسے رب پر ایمان لایا ہے جو کہ ناقص ہے اور یہ معلوم ہونا چاہئے کہ جس میں تھوڑی سی بھی عقل اور ایمان ہے کہ رب اس وقت تک رب نہیں ہوسکتا جب تک کہ ہر لحاظ سے کامل اور نقائص اور عیوب سے پاک اور دور نہ ہو وگرنہ وہ حقیقی رب نہیں۔
اور اس لئے ہم اللہ تعالی کی مخلوق ہیں یہ ممکن نہیں کہ ہم اس کی حکمت میں تھوڑی سی چیز تک بھی نہیں پہنچ سکتے مگر یہ کہ وہ ہمیں اس کی تعلیم دے تو جو اسکے افعال کی حکمت ہمیں سکھادی جائے وہ ہم سمجھیں گے اور اسکی تصدیق کرینگے اور جو اس نے اپنے خاص علم میں سے ہم سے چھپا کر رکھا ہم اس پر ایمان لائیں گے اور یہ جان لیں گے کہ اسکا کوئی فعل حکمت عظیمہ سے خالی نہیں ہوتا کیونکہ وہ حکمت والا اور علم والا ہے۔
اور ایسی بات تو ملحد جو کہ اصلا رب کے وجود پر ہی ایمان نہیں رکھتا وہی کہہ سکتا ہے۔ ہم اس سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں۔
اور جب ہم انسان میں سے کسی فن کے ماہر کی مہارت میں کوئی مناقشہ نہیں کرتے بلکہ ان کی بات مانتے ہیں جیسے کہ ڈاکٹر اور انجینئر وغیرہ کیونکہ ہم تعلیمی درجہ کے لحاظ سے یہ طاقت نہیں رکھتے کہ ہر وہ چیز سمجھ سکیں جو کہ وہ بیان کرتے ہیں تو پھر یہ اسکے زیادہ لائق اور اولی ہے کہ ہم اس علیم کے لئے اقرار کرلیں جسکے علم سے کوئی چیز غائب نہیں ہوسکتی کہ وہ اپنی مخلوق کے کاموں میں جو تصرف کرتا ہے اور ہم اسے سمجھ نہیں سکتے بیشک اس میں کوئی حکمت ہے اور وہ صحیح ہے۔
اور ہم انسان ہو کر بعض اوقات بعض ناپسندیدہ کام کرنا جن میں ہمارا فائدہ ہوتا ہے اسے حکمت میں شمار کرتے ہیں اور ہم انہیں نہ کریں تو ہم پر یہ تہمت لگائی جاتی ہے کہ اسکی عقل اور حکمت میں نقص ہے۔ تو مثلا وہ مریض جسے اپنے ہلاک ہوجانے کا ڈر ہے اور اسے علم ہے کہ اگر وہ یہ دوا پئے گا تو اللہ کے حکم سے اسے شفایابی ہوگی تو حکمت اسی میں ہے کہ وہ اس دوا کوپئے اگرچہ وہ کڑوی ہی کیوں نہ ہو اور اگر نہیں پئے گا تو اسکی غلطی ہوگی اور اسے کم عقل شمار کیا جائے گا۔ اور ایسے ہی ہم اپنی زندگی میں مصلحت کی بنا پر بہت سے ناپسندیدہ کام کرتے ہیں۔
اور اللہ تعالی کے لئے اچھی اچھی مثاليں ہیں اور اسکی گنجائش نہیں کہ اسے اس کی مخلوق پر قیاس کیا جائے تو وہ سبحانہ وتعالی اپنی بادشاہی میں بعض وہ کام کرتا ہے جو کہ اسے غضب دلاتے ہیں لیکن ان میں کوئی بہت بڑی حکمت ہوتی ہے جس کے ادراک سے ہم عاجز ہیں یا ان میں بہت ساری سے اور بعض چھوٹی چھوٹی حکمتیں ہمارے لئے واضح ہوجاتی ہیں تو یہ اللہ تعالی کی اپنے مومن بندوں پر رحمت ہے کہ وہ دنیا میں انہیں اپنی حکمتیں دکھا دیتا ہے تاکہ انکے دل مطمئن ہوجائیں۔
تو مثلا اگر ہم بعض وہ حکمتیں جو کہ بچے کی پیدائش اور پھر اسکی موت میں ہیں جسے ہم ممکن ہے کہ سمجھ سکیں وہ تلاش کرنا چاہیں۔ تو ہوسکتا ہے کہ اگر یہ بچہ زندہ رہتا تو ایسے بڑے بڑے گناہوں اور مہلک چیزوں کا ارتکاب کرتا جس سے اسکا جہنم میں ہمیشہ یا پھر ایک لمبی مدت تک رہنا واجب ہوجاتا یا پھر وہ دوسروں کو گمراہ کرتا مثلا اپنے والدین کو جس طرح کی اس بچے کا حال تھا جو موسی علیہ السلام کے قصہ میں ہے اور خضر نے اسے قتل کیا تھا (یہ سورۃ الکہف میں ہے)
اور طرح ہوسکتا ہے اگر یہ بچہ زندہ رہتا تو بہت سے مشاکل کا سامنا کرتا تو اس کے لئے موت اللہ تعالی کی طرف سے رحمت ہے۔
اور یہ کہ اگر اسے مفلوج پیدا کیا تو یہ بیماری اسے بہت سی برائیوں سے منع رکھے گی اگر وہ مفلوج نہ ہوتا تو یہ معاصی اورگناہ کرتا اور قیامت کے روز اسے اس کی سزا ملتی-
جیسا کہ یہ ضروری نہیں کہ ہر مرض اور مفلوج ہونا بطور سزا ہو بلکہ ہوسکتا ہے کہ وہ والدین کی آزمائش ہو جس پر صبر کرنے کی بنا پر انکے گناہ معاف کردیے جائیں یا پھر جنت میں انکے درجات بلند کردئیے جائیں تو پھر بچہ بڑا ہو تو اس کا بھی امتحان ہوتو اگر اس نے ایمان کے ساتھ صبر بھی کیا تو اللہ تعالی نے صابروں کے لئے بہت بڑا اجر تیار کیا ہے جسکا حساب وکتاب ممکن نہیں۔
فرمان باری تعالی ہے۔
"صبر کرنے والوں ہی کو انکا پورا پورا بے شمار اجر دیا جاتا ہے" الزمر10
اور ہم مسلمانوں کی زندگی ہماری وفات پر ختم نہیں ہوجاتی بلکہ ہمارا ایمان ہے کہ بیشک موت کے بعد جنت اور جہنم ہے اور اسی میں حقیقی زندگی ہے تو اہل خیر اپنے اچھے اعمال کی جو کہ وہ دنیا میں کرتے رہے ہیں اس کی جزا کو اللہ تعالی کے ہاں منتظر پائیں گے اور اسی طرح مشرک بھی ۔ تو یہ ممکن نہیں ہے کہ اچھی اور بری چیز برابر ہو اور ایسے ہی جس پر آزمائش آئی اور اس نے صبر کیا تو یہ ممکن نہیں کہ یہ صبر اللہ کے ہاں ضائع ہو جائے بلکہ ہو سکتا ہے کہ وہ جسے دنیا میں ابتلاء میں نہ ڈالا گیا وہ یہ تمنا کرے کہ اسے بھی اس طرح دکھ پھنچتا تا کہ وہ یہ بلند مقام حاصل کرتا جو اسے ملا ہے اور اس کے دلائل بہت ہیں –
"اور ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کریں گے دشمن کے ڈر سے بھوک اور پیاس سے مال وجان اور پھلوں کی کمی سے اور ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجۓ" البقرہ / 155
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ "مومن کے معاملہ پر تعجب ہے بے شک اس کا سارے کا سارا معاملہ بھلائی پر مشتمل ہے اور یہ مومن کے علاوہ کسی کے لۓ نھیں ہے اگر اسے خوشی حاصل ہو تو وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے تو یہ اس کے لۓ بہتر ہے اور اگر اسے کوئی تکلیف پھنچتی ہے تو وہ اس پر صبر کرتا ہے تو یہ اس کے لۓ بہتر ہے" ۔
اسے مسلم نے (2999) روایت کیا ہے ۔
تو اس سے ظاہر ہوا کہ ہماری نظر میں جن بے گناہوں پر مصائب آتے ہیں بلکہ سب لوگوں پر تو یہ ضروری نھیں کہ وہ بطور سزا ہی ہوں بلکہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے رحمت بھی ہو سکتے ہیں لیکن ہماری عقلیں قاصر ہیں اور بعض اوقات تو ہم اس میں اللہ تعالی کی حکمت کو سمجھنے سے ہی عاجز آجاتے ہیں – یا تو ہم اس پر ایمان لائیں کہ بیشک اللہ عزوجل ہم سے زیادہ عادل اور عالم اور اپنی مخلوق پر زیادہ رحم کرنے والا ہے اور ہم اس کے سامنے سر خم تسلیم کر دیں اور اس پر راضی ہو جائیں اور اپنے عاجز ہونے کا اقرار کریں کہ ہم اپنے آپ کی حقیقت کا بھی علم نھیں رکھتے اور یا پھر اپنی قاصر عقلوں کے ساتھ بڑا بنیں اور فخر کریں اور اپنی کمزور جانوں کے ساتھ دھوکہ کھاتے پھریں اور انکار کریں اور اللہ تعالی کا محاسبہ اور اس پر اعتراض کریں اور ایسی بات کسی مومن کے دل میں نھیں آ سکتی جو کہ اس پر ایمان رکھتا ہے کہ اللہ تعالی موجود ہے اور وہ رب اور خالق اور مالک اور ہر لحاظ سے مکمل حکمت والا ہے اور اگر ہم نے ایسا کام کیا تو ہم نے اپنے آپ پر اللہ تعالی کے غیض غضب کو دعوت دی اور اللہ تعالی کو کوئی نقصان نھیں دے سکتے تو اسی لۓ اللہ تعالی نے اس پر تنبیہ کرتے ہوۓ فرمایا ہے:
"وہ اپنے کاموں کے لۓ (کسی کے آگے) جواب دہ نھیں اور سب (اس کے آگے) جواب دہ ہیں" –الانبیاء / 32 ۔
اور جیسا کہ انسان کی کمزوری اور کم نظری ہے کہ وہ مصائب کو دیکھنے پر مقتصر ہے اور اس میں جو فوائد ہیں انھیں نھیں سمجھتا اور نہ باقی دوسری نعمتیں جو کہ اس کے ارد گرد ہیں انہیں دیکھتا ہے تو اللہ تعالی کی آدم کی اولاد پر یہ نعمت ہے کہ وہ جو انھیں مصائب پھنچتے ہیں ان کی مقدار کا موازنہ نھیں کرتا ۔
اور اگر کوئی ایسا انسان ہو جس کے بہت احسانات ہوں لیکن بعض اوقات وہ احسان نہ کرے تو اس کے احسان کو بھلانا انکار اور غیر پسندیدہ فعل شمار کیا جاتا ہے تو اللہ تعالی کے متعلق کیا خیال ہے اور اس کے لۓ اچھی اچھی مثالیں ہیں تو اس کے اس جھان میں سب کے سب تصرفات خیر اور بھلائی پر مشتمل ہیں اور کسی عمل کا کسی بھی وجہ سے شر پر مبنی ہونا ممکن نھیں -
اور یہ بھی کہ انبیاء اور رسول اس کی مخلوق میں سے سب سے زیادہ آزمائش اور مصائب کا شکار ہوتے ہیں تو یہ کیوں ؟
تو یہ انھیں بطور سزا اور اپنے رب کے ہاں ان کی قدر وقیمت کم ہونے کے سبب سے نھیں لیکن اللہ تعالی ان سے محبت کرتا ہے تو اس نے ان کے لۓ ان کا مکمل طور پر اجر جمع کیا ہوا ہو تاکہ وہ اسے جنت میں حاصل کر سکیں اور ان پر یہ مصائب اس لۓ لکھے ہیں تا کہ ان کے درجات کو بلند کرے تو اللہ سبحانہ و تعالی جو چاہے اور جب چاہے کرے اس کے حکم کو رد کرنے والا کوئی نھیں ہے اور وہ حکمت والا اور علم والا ہے اور اللہ تعالی زیادہ علم اور بلند اور حکمتوں والا ہے ۔
تنبیہ: جو کہ آپ کے اس قول کے متعلق ہے (میری سہیلی) وہ یہ کہ بے شک مرد اور عورت کے درمیان غیر شرعی تعلقات قائم کرنے حرام ہیں – اس اہم معاملے کی مزید تفصیل اور وضاحت کے لۓ آپ فتوی نمبر ( 9465 ) اور ( 1200 ) کا اسی ویپ سائٹ پر مراجع اور مطالعہ کریں ۔ .